جسے تو نے سمجھا ہے زندگی اسی انقلاب کا نام ہے
کبھی دن ہوا کبھی شب ہوئی کبھی صبح ہے کبھی شام ہے
تہ خاک بھی دل مبتلا کو کبھی قرار نہ آئے گا
ہوں ابھی سے حشر کا منتظر کہ نوید جلوۂ عام ہے
کوئی حوصلہ ہے نہ مدعا کوئی آرزو ہے نہ التجا
مرے دل میں اک تری یاد ہے مرے لب پہ اک ترا نام ہے
وہاں وعدے ہوتے ہیں آئے دن سر شام خواب میں آئیں گے
یہاں اضطراب تمام سے مری شب کی نیند حرام ہے
تو شراب دے کہ نہ دے مگر مرے دل کو توڑ نہ ساقیا
کہ غریب بادہ پرست کا یہی شیشہ ہے یہی جام ہے
مرے ذوق دید کا ہو برا کہاں جا کے سینکے کوئی نظر
نہ تجلیٔ سر رہ گزر نہ تجلیٔ سر بام ہے
مری قید زیست کے ساتھ ہی ہے اجل کی قید لگی ہوئی
ہوں سریر میں وہ اسیر غم جو قفس میں بھی تہہ دام ہے

غزل
جسے تو نے سمجھا ہے زندگی اسی انقلاب کا نام ہے
سریر کابری