جس وقت اس نے بخت ہمارے بنائے تھے
ہم نے ہتھیلیوں پہ ستارے بنائے تھے
کچھ پنچھیوں نے گھونسلے پیڑوں کے جھنڈ میں
اونچی جگہوں پہ خوف کے مارے بنائے تھے
میں نے بس ایک نہر نکالی تھی ہاتھ سے
دریا نے آپ اپنے کنارے بنائے تھے
حسب مراد دست ہنر بولنے لگا
گونگے نے چند ایسے اشارے بنائے تھے
کچھ زندگی بہ یاد عزیزاں ضرور تھی
کچھ دوست ہم نے جان سے پیارے بنائے تھے
ہم نے حیا پہن کے محبت شعار کی
گڑیوں کے واسطے بھی غرارے بنائے تھے
دل میں نسیمؔ حسن کی تکفیل کے لیے
آنکھوں نے کیسے کیسے ادارے بنائے تھے

غزل
جس وقت اس نے بخت ہمارے بنائے تھے
نسیم عباسی