جس کو دیکھو زرد چہرہ آنکھ پتھرائی ہوئی
خوب اے عیسیٰ نفس تیری مسیحائی ہوئی
کرب کی اک مشترک تحریر ہر چہرے پہ تھی
اجنبی لوگوں سے پل بھر میں شناسائی ہوئی
بے اصولی مصلحت کے نام سے پھولی پھلی
ہم اصولوں پر لگے جینے تو رسوائی ہوئی
کر رہا ہوں حال میں گزرے ہوئے لمحے تلاش
گتھیاں سلجھا رہا ہوں اپنی الجھائی ہوئی
سر سے اونچا تھا جو پانی سر سے اونچا ہی رہا
جتنا قد بڑھتا گیا اتنی ہی گہرائی ہوئی

غزل
جس کو دیکھو زرد چہرہ آنکھ پتھرائی ہوئی
مرتضیٰ برلاس