EN हिंदी
جس کو دیکھو وہی آوارہ و سودائی ہے | شیح شیری
jis ko dekho wahi aawara-o-saudai hai

غزل

جس کو دیکھو وہی آوارہ و سودائی ہے

صلاح الدین ندیم

;

جس کو دیکھو وہی آوارہ و سودائی ہے
زندگی ہے کہ کسی دشت کی پہنائی ہے

شعلۂ غم کو رگ جاں میں کیا جذب تو پھر
ہر نظر صورت خورشید نظر آئی ہے

ڈوب کر دل میں ابھرتی ہے کوئی موج خیال
ابر چھایا ہے کبھی برق سی لہرائی ہے

گیت کے روپ میں پابند بہاروں کی فضا
چمن دل میں مرے اور نکھر آئی ہے

لذت عشق سے بھرپور غم دل کی صدا
پردۂ شب میں کئی چاند اڑا لائی ہے

شبنمی آنکھ سے دیکھو تو چمن کی جانب
سینۂ گل میں شراروں نے نمو پائی ہے

سوچتا ہوں کہ زمانے سے نکل کر آگے
پھر وہی میں ہوں وہی گوشۂ تنہائی ہے

اپنے ہونے کی حقیقت کا یقیں ہے لیکن
آنکھ کیوں جلوۂ ہستی کی تمنائی ہے

یہ عجب سلسلۂ قید نظر ہے کہ ندیمؔ
ہر نظر اپنی ہی دنیا کی تماشائی ہے