جس دن سے حرام ہو گئی ہے
مے خلد مقام ہو گئی ہے
قابو میں ہے ان کے وصل کا دن
جب آئے ہیں شام ہو گئی ہے
افتاد چمن یہ ہے کہ بلبل
خود ہی تہ دام ہو گئی ہے
توبہ سے گھٹی یہ قدر و قیمت
مے دام کے دام ہو گئی ہے
آتی ہے قیامت اس گلی میں
پامال خرام ہو گئی ہے
توبہ سے ہماری بوتل اچھی
جب ٹوٹی ہے جام ہو گئی ہے
کچھ زہر نہ تھی شراب انگور
کیا چیز حرام ہو گئی ہے
لب تک جو کبھی نہ آئے وہ آہ
اونچی سو بام ہو گئی ہے
مے نوش ضرور ہیں وہ نا اہل
جن پر یہ حرام ہو گئی ہے
بجھ بجھ کے جلی تھی قبر پر شمع
جل جل کے تمام ہو گئی ہے
آ جائے اسے جو آئے مجھ تک
موت ان کا پیام ہو گئی ہے
ہر بات میں ہونٹھ پر ہے دشنام
اب حسن کلام ہو گئی ہے
سر خم ہے حرم میں سوئے طیبہ
کچھ خوئے سلام ہو گئی ہے
دولت دل کی بتو ہے محفوظ
اللہ کے نام ہو گئی ہے
پھر پھر کے نظر ہوئی ہے صدقے
جم کر خط جام ہو گئی ہے
ہے دور ابھی ریاضؔ منزل
دن ختم ہے شام ہو گئی ہے

غزل
جس دن سے حرام ہو گئی ہے
ریاضؔ خیرآبادی