جس در پہ ترا نقش کف پا نہ رہے گا
رندوں کے لئے قابل سجدا نہ رہے گا
جاتا تو ہے اس جلوہ گہہ ناز میں اے دل
کیا ہوگا اگر ضبط کا یارا نہ رہے گا
پروانے کو پھونکا ہے تو اے شمع سمجھ لے
تیرا بھی کلیجہ کبھی ٹھنڈا نہ رہے گا
دیوانے کو زنجیر سے گہرا ہے تعلق
کیوں اس کو تری زلف کا سودا نہ رہے گا
پروردۂ طوفاں ہے مرے دل کا سفینہ
ساحل کی طرح یہ لب دریا نہ رہے گا
جھنجھلا کے کہا اس نے یہ آئینہ پٹک کر
منہ اس میں جو دیکھے گا وہ یکتا نہ رہے گا
مرنے کی اداؤں سے نہیں برقؔ جو واقف
رہتے ہوئے زندہ بھی وہ زندہ نہ رہے گا

غزل
جس در پہ ترا نقش کف پا نہ رہے گا
رحمت الٰہی برق اعظمی