جنوں آزمانا پڑا زندگی میں
سبھی کچھ نبھانا پڑا زندگی میں
سہی جس پہ بیٹھے نہ سر تال میرے
وہ نغمہ بھی گانا پڑا زندگی میں
نہ دستار جائے اسی ضد میں ہم کو
بہت کچھ گنوانا پڑا زندگی میں
جو بے کار باتوں پہ روٹھے تھے ہم سے
انہیں بھی منانا پڑا زندگی میں
ملے ہم کو کچھ لوگ ایسے بھی جن سے
سوینم کو بچانا پڑا زندگی میں
وہ گہرائی میں کتنے اترے ہیں دل کی
سبھی سے چھپانا پڑا زندگی میں
رہے ایسے حالات بچپن سے جن میں
اثرؔ خود کمانا پڑا زندگی میں

غزل
جنوں آزمانا پڑا زندگی میں
پرمود شرما اثر