EN हिंदी
جن کی یادیں ہیں ابھی دل میں نشانی کی طرح | شیح شیری
jin ki yaaden hain abhi dil mein nishani ki tarah

غزل

جن کی یادیں ہیں ابھی دل میں نشانی کی طرح

والی آسی

;

جن کی یادیں ہیں ابھی دل میں نشانی کی طرح
وہ ہمیں بھول گئے ایک کہانی کی طرح

دوستو ڈھونڈ کے ہم سا کوئی پیاسا لاؤ
ہم تو آنسو بھی جو پیتے ہیں تو پانی کی طرح

غم کو سینے میں چھپائے ہوئے رکھنا یارو
غم مہکتے ہیں بہت رات کی رانی کی طرح

تم ہمارے تھے تمہیں یاد نہیں ہے شاید
دن گزرتے ہیں برستے ہوئے پانی کی طرح

آج جو لوگ ترے غم پہ ہنسے ہیں والیؔ
کل تجھے یاد کریں گے وہی فانیؔ کی طرح