EN हिंदी
جگر اور دل کو بچانا بھی ہے | شیح شیری
jigar aur dil ko bachana bhi hai

غزل

جگر اور دل کو بچانا بھی ہے

اسرار الحق مجاز

;

جگر اور دل کو بچانا بھی ہے
نظر آپ ہی سے ملانا بھی ہے

محبت کا ہر بھید پانا بھی ہے
مگر اپنا دامن بچانا بھی ہے

جو دل تیرے غم کا نشانہ بھی ہے
قتیل جفائے زمانہ بھی ہے

یہ بجلی چمکتی ہے کیوں دم بدم
چمن میں کوئی آشیانہ بھی ہے

خرد کی اطاعت ضروری سہی
یہی تو جنوں کا زمانا بھی ہے

نہ دنیا نہ عقبیٰ کہاں جائیے
کہیں اہل دل کا ٹھکانا بھی ہے

مجھے آج ساحل پہ رونے بھی دو
کہ طوفان میں مسکرانا بھی ہے

زمانے سے آگے تو بڑھیے مجازؔ
زمانے کو آگے بڑھانا بھی ہے