EN हिंदी
جذب کچھ تتلیوں کے پر میں ہے | شیح شیری
jazb kuchh titliyon ke par mein hai

غزل

جذب کچھ تتلیوں کے پر میں ہے

آلوک مشرا

;

جذب کچھ تتلیوں کے پر میں ہے
کیسی خوشبو سی اس کلر میں ہے

آنے والا ہے کوئی صحرا کیا
گرد ہی گرد رہ گزر میں ہے

جب سے دیکھا ہے خواب میں اس کو
دل مسلسل کسی سفر میں ہے

چھو کے گاڑی بغل سے کیا گزری
بے خیالی سی اک نظر میں ہے

میں بھی بکھرا ہوا ہوں اپنوں میں
وہ بھی تنہا سا اپنے گھر میں ہے

رات تم یاد بھی نہیں آئے
پھر اداسی سی کیوں سحر میں ہے

اس کی خاموشی گونجتی ہوگی
شور برپا جو دل کھنڈر میں ہے

ہاتھ سر پر وہ شاخیں رکھتی ہیں
کوئی اپنا سا اس شجر میں ہے