جذب کچھ تتلیوں کے پر میں ہے
کیسی خوشبو سی اس کلر میں ہے
آنے والا ہے کوئی صحرا کیا
گرد ہی گرد رہ گزر میں ہے
جب سے دیکھا ہے خواب میں اس کو
دل مسلسل کسی سفر میں ہے
چھو کے گاڑی بغل سے کیا گزری
بے خیالی سی اک نظر میں ہے
میں بھی بکھرا ہوا ہوں اپنوں میں
وہ بھی تنہا سا اپنے گھر میں ہے
رات تم یاد بھی نہیں آئے
پھر اداسی سی کیوں سحر میں ہے
اس کی خاموشی گونجتی ہوگی
شور برپا جو دل کھنڈر میں ہے
ہاتھ سر پر وہ شاخیں رکھتی ہیں
کوئی اپنا سا اس شجر میں ہے
غزل
جذب کچھ تتلیوں کے پر میں ہے
آلوک مشرا