جور زمیں نہ تھا ستم آسماں نہ تھا
وہ بھی تھا وقت جب کہ غم دو جہاں نہ تھا
کوئی بھی لطف زیست تہہ آسماں نہ تھا
دنیا مری خراب تھی تو مہرباں نہ تھا
سنتا یہ کون ضبط پہ قابو نہیں ہے اب
اچھا ہوا جو کوئی مرا راز داں نہ تھا
دیوانگی نے بات بنا دی کہ اس سے میں
ضد کر رہا ہوں اب کہ یہ میرا بیاں نہ تھا
بدنام خود ہوئے ہو زباں سے نکال کر
میرا سوا تمہارے کوئی راز داں نہ تھا
سجدوں کی داد مل گئی باب قبول سے
مانا نظر کے سامنے وہ آستاں نہ تھا
مایوسیٔ نظر کے مناظر ہیں خوفناک
پھر آپ ہی کہیں گے مجھے یہ گماں نہ تھا
وہ میرے سامنے تھے میں تھا ان کے سامنے
جب تک کہ میرا راز کسی پر عیاں نہ تھا
للہ ہم سے قصۂ عالمؔ نہ پوچھئے
سنتے ہیں لاش پر کوئی بھی نوحہ خواں نہ تھا
غزل
جور زمیں نہ تھا ستم آسماں نہ تھا
میرزا الطاف حسین عالم لکھنوی