جلوہ گر سوچوں میں ہیں کچھ آگہی کے آفتاب
روشنی سے لکھ رہا ہوں زندگانی کا نصاب
پتھروں سے کب تلک باندھے گی امید وفا
زندگی دیکھے گی کب تک جاگتی آنکھوں سے خواب
کیا خبر وہ کون ہیں روز جزا کے منتظر
چشم بینا کے لیے ہر روز ہے روز حساب
خاک زندہ گر کرے حسن ازل کی آرزو
درمیاں رہتا نہیں پھر کوئی بھی تار حجاب
جانتے ہیں وہ حصول مایہ کی ہر اک سبیل
حفظ ہیں سجادگاں کو خانقاہی کے نصاب
انقلاب صبح کی کچھ کم نہیں یہ بھی دلیل
پتھروں کو دے رہے ہیں آئنے کھل کر جواب

غزل
جلوہ گر سوچوں میں ہیں کچھ آگہی کے آفتاب
حنیف ساجد