جلتی رہنا شمع حیات
پھر نہ ملے گی ایسی رات
کہہ تو گئی وہ نیچی نگاہ
راز ہی رکھنا راز حیات
ہم کچھ سمجھے وہ کچھ اور
خاموشی میں بڑھ گئی بات
کس کو سنائیں پوچھے کون
آہ نیم شبی کی بات
روح کے منکر جسم پرست
سہل نہیں عرفان حیات
اف یہ دست طلب اور ہم
سب ہے وقت پڑے کی بات
دامن سے اب منہ نہ چھپا
جا بھی چکی اشکوں کی برات
جس نے نہ پائی اپنی پناہ
کیا دے گا اوروں کو نجات
شعر وہی ہے جس میں سراجؔ
خود تڑپے روح جذبات
غزل
جلتی رہنا شمع حیات
سراج لکھنوی