جیسے صبح کو سورج نکلے شام ڈھلے چھپ جائے ہے
تم بھی مسافر میں بھی مسافر دنیا ایک سرائے ہے
راز خودی ہے یہ فرزانو بہتر ہے یہ راز نہ جانو
جو خود کو پہچانے ہے وہ دیوانہ کہلائے ہے
فہم و خرد سے جوش جنوں تک ہر منزل سے گزرے ہیں
ہم تو دیوانے ہیں بھائی ہم کو کیا سمجھائے ہے
ہجر کی شب یوں تھپک تھپک کر مجھ کو سلائے تیری یاد
جیسے ماں کی لوری سن کر اک بچہ سو جائے ہے
جب سے تم نے آنکھیں پھیریں سب نے ہی منہ پھیر لیا
ہائے شب ہجراں کیا کہئے شبنم آگ لگائے ہے
کوئی مجھ سے مجھے ملا دے مجھ کو ہے اپنی ہی تلاش
بستی بستی یہ دیوانہ کیسا شور مچائے ہے
جس نے سب کے غم بانٹے ہیں ہم وہ دیوانے ہیں شفیقؔ
یہ وہ دور ہے جس میں ہر اک اپنی آگ بجھائے ہے
غزل
جیسے صبح کو سورج نکلے شام ڈھلے چھپ جائے ہے
شفیق دہلوی