جیسے کسی طوفان کا خدشہ بھی نہیں تھا
کیا لوگ تھے اندیشۂ فردا بھی نہیں تھا
وہ کیسے مسافر تھے کہ بے زاد سفر تھے
سینے پہ کوئی بار تمنا بھی نہیں تھا
کیوں لوگ مزاروں پہ دعا مانگ رہے تھے
مجھ پر کسی آسیب کا سایہ بھی نہیں تھا
کس باغ طلسمات میں گم ہو گئیں آنکھیں
میں نے تری جانب ابھی دیکھا بھی نہیں تھا
کیوں تازہ ہوا کا کوئی جھونکا نہیں آیا
احساس کے در پر کوئی پردہ بھی نہیں تھا
نشہ در گندم کا ہرن ہونے سے پہلے
جنت سے نکلنا ہے یہ سوچا بھی نہیں تھا
گرتی ہوئی دیوار کو سب دیکھ رہے تھے
اس شہر میں کچھ اور تماشا بھی نہیں تھا
ناکردہ گناہی کی سزا دے مجھے یارب
جو کام کیا میں نے وہ اچھا بھی نہیں تھا
غزل
جیسے کسی طوفان کا خدشہ بھی نہیں تھا
مظہر امام