جیسے ہی چشم رزاق سے گر گیا
جگمگاتا دیا طاق سے گر گیا
ایک لغزش سے دونوں ہی رسوا ہوئے
وہ نظر سے میں آفاق سے گر گیا
شعر کہنے کو لکھا تھا میں نے ابھی
ایک مضمون اوراق سے گر گیا
اس کی نظروں سے میں کیا گرا ایک بار
یوں لگا جیسے آفاق سے گر گیا
ایک بیٹا تکبر کے آکاش سے
باپ کے لفظ اک عاق سے گر گیا
تیرگی جب نہ مٹ پائی سوکھا دیا
ٹمٹماتا ہوا طاق سے گر گیا
تمکنت کے سبب اک امیر الملوک
یاد رکھ چشم خلاق سے گر گیا

غزل
جیسے ہی چشم رزاق سے گر گیا
اطہر شکیل