EN हिंदी
جیسے ہم بزم ہیں پھر یار طرح دار سے ہم | شیح شیری
jaise ham-bazm hain phir yar-e-tarah-dar se hum

غزل

جیسے ہم بزم ہیں پھر یار طرح دار سے ہم

فیض احمد فیض

;

جیسے ہم بزم ہیں پھر یار طرح دار سے ہم
رات ملتے رہے اپنے در و دیوار سے ہم

سر خوشی میں یونہی دل شاد و غزل خواں گزرے
کوئے قاتل سے کبھی کوچۂ دل دار سے ہم

کبھی منزل کبھی رستے نے ہمیں ساتھ دیا
ہر قدم الجھے رہے قافلہ سالار سے ہم

ہم سے بے بہرہ ہوئی اب جرس گل کی صدا
ورنہ واقف تھے ہر اک رنگ کی جھنکار سے ہم

فیضؔ جب چاہا جو کچھ چاہا سدا مانگ لیا
ہاتھ پھیلا کے دل بے زر و دینار سے ہم