جیسا ہوں ویسا کیوں ہوں سمجھا سکتا تھا میں
تم نے پوچھا تو ہوتا بتلا سکتا تھا میں
آسودہ رہنے کی خواہش مار گئی ورنہ
آگے اور بہت آگے تک جا سکتا تھا میں
چھوٹی موٹی ایک لہر ہی تھی میرے اندر
ایک لہر سے کیا طوفان اٹھا سکتا تھا میں
کہیں کہیں سے کچھ مصرعے ایک آدھ غزل کچھ شعر
اس پونجی پر کتنا شور مچا سکتا تھا میں
جیسے سب لکھتے رہتے ہیں غزلیں نظمیں گیت
ویسے لکھ لکھ کر انبار لگا سکتا تھا میں
غزل
جیسا ہوں ویسا کیوں ہوں سمجھا سکتا تھا میں
افتخار عارف