EN हिंदी
جہاں کو ابھی تاب الفت نہیں ہے | شیح شیری
jahan ko abhi tab-e-ulfat nahin hai

غزل

جہاں کو ابھی تاب الفت نہیں ہے

آنند نرائن ملا

;

جہاں کو ابھی تاب الفت نہیں ہے
بشر میں ابھی آدمیت نہیں ہے

تکلف اگر ہے حقیقت نہیں ہے
تصنع زبان محبت نہیں ہے

ضروری ہو جس کے لئے ایک دوزخ
وہ میرے تصور کی جنت نہیں ہے

مرے دل میں اک تو ہے تجھ سے حسیں تر
مجھے اب تری کچھ ضرورت نہیں ہے

محبت یقیناً خلاف خرد ہے
مگر عقل ہی اک حقیقت نہیں ہے

اسے ایک بیتابیٔ شوق سمجھو
تغافل کا شکوہ شکایت نہیں ہے

مجھے کر کے چپ کوئی کہتا ہے ہنس کر
انہیں بات کرنے کی عادت نہیں ہے

کبھی ہو سکے گا نہ ملاؔ کا ایماں
جس ایماں میں دل کی نبوت نہیں ہے