جفا پہ شکر کا امیدوار کیوں آیا
مری وفا کا اسے اعتبار کیوں آیا
یہ دل کی بات ہی منہ سے ادا نہیں ہوتی
میں کیا کہوں کہ یہاں بار بار کیوں آیا
خیال پرسش محشر سے وہ ہوا مغموم
نظر کے سامنے میرا مزار کیوں آیا
کہاں وہ ہاتھ میں پاؤں حسین لڑکوں کے
سڑی نہیں تو سوئے کوہسار کیوں آیا
تڑپ تھی مر کے بھی میت پہ شاید آیا وہ
نہیں یہ بات تو دل کو قرار کیوں آیا
ہوا میں خاک تو وہ لڑ رہا ہے آندھی سے
کہ تیرے ساتھ مرے گھر غبار کیوں آیا
وہ انتظار کی لذت بھی لے گیا اے شوقؔ
ہوا کے گھوڑے پہ ظالم سوار کیوں آیا

غزل
جفا پہ شکر کا امیدوار کیوں آیا
شوق قدوائی