جفا میں نام نکالو نہ آسماں کی طرح
کھلیں گی لاکھ زبانیں مری زباں کی طرح
فریب اثر کو کوئی دے مری فغاں کی طرح
تراشتی ہے یہ فقرے تری زباں کی طرح
یہ کس کی سایۂ دیوار نے مجھے پیسا
یہ کون ٹوٹ پڑا مجھ پہ آسماں کی طرح
ضرور ڈھائیں گے آفت کچھ ان کے ناوک ناز
چڑھے ہیں گوشہ ابرو کڑی کماں کی طرح
رہ حیات کٹی اس طرح کہ اٹھ اٹھ کر
میں بیٹھ بیٹھ گیا گرد کارواں کی طرح
برنگ طائر بو میں ہوں غنچہ و گل ہیں
مرے قفس کی طرح میرے آشیاں کی طرح
نہ تیرے در سے ہٹے تیری ٹھوکریں کھا کر
وہیں جمے رہے ہم سنگ آستاں کی طرح
ہمیں ہے گھر سے تعلق اب اس قدر باقی
کبھی جو آئے تو دو دن کو مہمان کی طرح
گیا چمن کو تو جھک کر بہت ملیں شاخیں
لیا گلوں نے مجھے میرے آشیاں کی طرح
بلا ہے یہ کوئی تھوڑا نہ جانے پیکاں کو
لہو پیے گا ہمارا غم نہاں کی طرح
ذرا سی جان کو لاکھوں طرح کے کھٹکے ہیں
چمن نہ لائے کہیں رنگ آسماں کی طرح
میں آؤں آپ کے گھر کیا مجھے ڈراتے ہیں
عدو کے نقش قدم چشم قدم چشم پاسباں کی طرح
شریک درد تو کیا باعث اذیت ہیں
وہ لوگ جن سے تعلق تھا جسم و جاں کی طرح
تمہیں بھی دے گی مزا کچھ مری مصیبت عشق
کہیں کہیں سے سنو اس کو داستاں کی طرح
رہے کبھی نہ الٰہی مرا قفس خالی
کہ مجھ کو چین ملا اس میں آشیاں کی طرح
مجھے شباب نے مارا بلائے جاں ہو کر
بہار آئی مرے باغ میں خزاں کی طرح
قفس میں لوٹ لئے کون سے مزے میں نے
دکھائے آنکھ نے صیاد باغباں کی طرح
کسی کو چین نہ قاتل کی شوخیوں سے ملا
مرے ہوئے بھی تڑپتے ہیں نیم جاں کی طرح
تری اٹھان ترقی کرے قیامت کی
ترا شباب بڑھے عمر جاوداں کی طرح
جو اپنے گھر کوئی آ لے تو کون دے تکلیف
ستارے کون وہ بیٹھے ہیں مہماں کی طرح
ریاضؔ موت ہے اس شرط سے ہمیں منظور
زمیں ستائے نہ مرنے پر آسماں کی طرح
غزل
جفا میں نام نکالو نہ آسماں کی طرح
ریاضؔ خیرآبادی