جب تو مجھ سے روٹھ گیا تھا
دل آنگن میں سناٹا تھا
تو کیا جانے تجھ سے بچھڑ کر
میں کتنے دن تک رویا تھا
ساری خوشیاں روٹھ گئی تھیں
ارمانوں نے دم توڑا تھا
رستہ رستہ نگری نگری
دل تجھ کو ہی ڈھونڈھ رہا تھا
تنہائی کی فصل اگی تھی
یادوں کا جنگل پھیلا تھا
فکر کے ہونٹوں پر تالے تھے
غزلوں کا دامن سونا تھا

غزل
جب تو مجھ سے روٹھ گیا تھا
سلیمان خمار