جب تری چاہ میں دامان جنوں چاک ہوا
پھر کہیں جا کے مجھے عشق کا ادراک ہوا
یوں تو اک جیسے نظر آتے ہیں چہرے لیکن
کوئی خوش خواب ہوا اور کوئی غم ناک ہوا
ورق جاں پہ لکھے میں نے صحیفے دل کے
اس حوالے سے بھی میں شعلۂ بے باک ہوا
کوئی مر کے بھی زمانے میں امر ہوتا ہے
اور کوئی جیتے ہوئے بھی جسد خاک ہوا
جس کی لہروں سے جنم لیتے ہیں صندل سے بدن
اس سمندر کا بصد شوق میں پیراک ہوا
اے خیالؔ آئینۂ حسن مجسم کی قسم
خاک پر بیٹھ کے میں صاحب افلاک ہوا

غزل
جب تری چاہ میں دامان جنوں چاک ہوا
رفیق خیال