جب تک جنوں جنوں ہے غم آگہی بھی ہے
یعنی اسیر نغمہ مری بے خودی بھی ہے
کھلتے ہیں پھول جن کے تبسم کے واسطے
شبنم میں ان کے عکس کی آزردگی بھی ہے
کچھ ساعتوں کا رنگ مرے ساتھ ساتھ ہے
وہ نکہت بہار مگر اجنبی بھی ہے
زندہ ہوں میں کہ آگ جہنم کی بن سکوں
فردوس آرزو مرے دل کی کلی بھی ہے
اس یاد کا بھنور میرے احساس میں رہا
اظہار موج موج کی ناگفتنی بھی ہے
پلکوں پہ چاندنی کے تکلم کی آنچ تھی
ہونٹوں پہ گفتگو کے لیے تشنگی بھی ہے
کیوں تیرگی سے اس قدر مانوس ہوں ظفرؔ
اک شمع راہ گزار کہ سحر تک جلی بھی ہے
غزل
جب تک جنوں جنوں ہے غم آگہی بھی ہے
احمد ظفر