جب طبیعت سکوں سے گھبرائی
لے چلا ذوق آبلہ پائی
وہ ہوئے مائل مسیحائی
موت پھر زندگی سے شرمائی
زلف بکھری کہ بس گھٹا چھائی
اہل تقوی پہ اک بلا آئی
طائر آرزو نے پر تولے
صحن دل میں چلی ہے پروائی
مڑ کے طوفاں کو بارہا دیکھا
نزد ساحل جو موج لے آئی
کشمکش وہ جنون و ہوش میں ہے
بن گیا حسن بھی تماشائی
روح و تن میں ازل سے نسبت ہے
پھر بھی ہیں تشنۂ شناسائی
شیخ کو خلد و حور کا سودا
ہائے یہ لذتوں کی گیرائی
مے کدہ کا یہ معجزہ ہے عجیب
کفر و دیں میں بھی ہے شناسائی
شغل مے فرط غم میں کیا کرتے
اس میں تھی دخت رز کی رسوائی
دن کو مسجد تو شب کو مے خانہ
تجھ سا فرحتؔ ہے کون ہرجائی

غزل
جب طبیعت سکوں سے گھبرائی
پریم شنکر گوئلہ فرحت