جب سے وہ کہہ کے گئے ہیں کہ ابھی آتے ہیں
کوئی آتا ہے سمجھتا ہوں وہی آتے ہیں
برگ و بار آتے ہیں شاخوں میں گل و غنچہ بھی
وہ جب آتے ہیں چمن میں تو سبھی آتے ہیں
اپنی قسمت کا ستارہ تو نہیں گردش میں
نہ خبر آتی ہے ان کی نہ وہی آتے ہیں
عشق صادق نے جھکایا سر حسن مغرور
جن کو دعویٰ تھا نہ آنے کا وہی آتے ہیں
اشک بن کر کبھی آتے ہیں کبھی بن کے ہنسی
اب محبت میں بہر شکل وہی آتے ہیں
اب تو اک بھیڑ چلا کرتی ہے ان کے ہمراہ
بات بھی کر نہیں سکتے جو کبھی آتے ہیں
پینے جاتے ہیں سر شام نذیرؔ ایک بزرگ
اور کچھ رات ڈھلے بن کے ولی آتے ہیں
غزل
جب سے وہ کہہ کے گئے ہیں کہ ابھی آتے ہیں
نذیر بنارسی