EN हिंदी
جب سے دلبر نے آنکھ پھیرا ہے | شیح شیری
jab se dilbar ne aankh phera hai

غزل

جب سے دلبر نے آنکھ پھیرا ہے

ولی عزلت

;

جب سے دلبر نے آنکھ پھیرا ہے
مجھ کو دوران سر نے گھیرا ہے

کوچۂ زلف نت اندھیرا ہے
وہاں سیہ بخت دل کا ڈیرا ہے

وجد میں ہیں دوانے ابر کو دیکھ
لیلیٰٔ فصل گل کا ڈیرا ہے

یکہ آزاد ہے دو عالم سے
جو کہ بے دام تیرا چیرا ہے

گال پر ہے کسی کے کاٹ کا نقش
منہ پہ زلفیں تبھی بکھیرا ہے

نت بکے ہے کہ باؤلا عزلتؔ
یہ نہ بولا کبھو کہ میرا ہے