جب سے دلبر نے آنکھ پھیرا ہے
مجھ کو دوران سر نے گھیرا ہے
کوچۂ زلف نت اندھیرا ہے
وہاں سیہ بخت دل کا ڈیرا ہے
وجد میں ہیں دوانے ابر کو دیکھ
لیلیٰٔ فصل گل کا ڈیرا ہے
یکہ آزاد ہے دو عالم سے
جو کہ بے دام تیرا چیرا ہے
گال پر ہے کسی کے کاٹ کا نقش
منہ پہ زلفیں تبھی بکھیرا ہے
نت بکے ہے کہ باؤلا عزلتؔ
یہ نہ بولا کبھو کہ میرا ہے
غزل
جب سے دلبر نے آنکھ پھیرا ہے
ولی عزلت