جب رات کے سینے میں اترنا ہے تو یارو
بہتر ہے کسی چاند کو شیشے میں اتارو
دیوار پگھلتی ہے جھلس جاتے ہیں سائے
یہ دھوپ نگاہوں کی بہت تیز ہے یارو
پرچھائیاں پوجیں گے کہاں تک یہ پجاری
اپناؤ کوئی جسم کوئی روپ تو دھارو
خود اہل قلم اس میں کئی رنگ بھریں گے
تم ذہن کے پردے پہ کوئی نقش ابھارو
تم وقت کی دہلیز پہ دم توڑ رہے ہو
میں بھاگتا لمحہ ہوں مجھے تم نہ پکارو
حالات یہ کہتے ہیں کہ تم زندہ رہو گے
پلکوں پہ لرزتے ہوئے خوش بخت ستارو

غزل
جب رات کے سینے میں اترنا ہے تو یارو
رشید قیصرانی