جب کوئی بھی خاقان سر بام نہ ہوگا
پھر اہل زمیں پر کوئی الزام نہ ہوگا
کل وہ ہمیں پہچان نہ پائے سر راہے
شاید انہیں اب ہم سے کوئی کام نہ ہوگا
پھر کون سمجھ پائے گا اسرار حقیقت
جب فیصلہ کوئی بھی سر عام نہ ہوگا
یہ عہد رواں خاک نشاں دھیان میں رکھو
پھر ڈھونڈو گے کس کو جو کوئی نام نہ ہوگا
بننے کو ہے اک روز پرندوں کا مقدر
اتریں گے تو ہم رنگ زمیں دام نہ ہوگا
محفل میں اگر ذکر ہو ارباب وفا کا
ایسا نہیں راحتؔ کہ ترا نام نہ ہوگا
غزل
جب کوئی بھی خاقان سر بام نہ ہوگا
امین راحت چغتائی