EN हिंदी
جب کسی نے حال پوچھا رو دیا | شیح شیری
jab kisi ne haal puchha ro diya

غزل

جب کسی نے حال پوچھا رو دیا

شاد عظیم آبادی

;

جب کسی نے حال پوچھا رو دیا
چشم تر تو نے تو مجھ کو کھو دیا

داغ ہو یا سوز ہو یا درد و غم
لے لیا خوش ہو کے جس نے جو دیا

اشک ریزی کے دھڑلے نے غبار
جب ذرا بھی دل پہ دیکھا دھو دیا

دل کی پروا تک نہیں اے بے خودی
کیا کیا پھینکا کہاں کس کو دیا

کچھ نہ کچھ اس انجمن میں حسب حال
تو نے قسام ازل سب کو دیا

کشت دنیا کیا خبر کیا پھل ملے
تخم غم ہم نے تو آ کر بو دیا

یہ بھی نشہ مے کشو کچھ کم نہیں
دے نہ دے ساقی پہ تم سمجھو دیا

شادؔ کے آگے بھلا کیا ذکر یار
نام ادھر آیا کہ اس نے رو دیا

زمرۂ اہل قلم میں لکھ کے نام
خود کو ناحق شادؔ تو نے کھو دیا