جب کبھی میرے قدم سوئے چمن آئے ہیں
اپنا دکھ درد لیے سرو و سمن آئے ہیں
پاؤں سے لگ کے کھڑی ہے یہ غریب الوطنی
اس کو سمجھاؤ کہ ہم اپنے وطن آئے ہیں
جھاڑ لو گرد مسرت کو، بٹھا لو دل میں
بھولے بھٹکے ہوئے کچھ رنج و محن آئے ہیں
جب لہو روئے ہیں برسوں تو کھلی زلف خیال
یوں نہ اس ناگ کو لہرانے کے فن آئے ہیں
کچھ عجب رنگ ہے اس آن طبیعت کا نعیمؔ
کچھ عجب طرز کے اس وقت سخن آئے ہیں
غزل
جب کبھی میرے قدم سوئے چمن آئے ہیں
حسن نعیم