جب ہماری زندگی کا ختم افسانہ ہوا
اس گھڑی صد حیف ان کا خیر سے آنا ہوا
آپ تو ہنستے رہے ہم رو کے رسوا ہو گئے
شمع تو چلتی رہی پامال پروانہ ہوا
میری بربادی کے چرچے سن کے کس کس ناز سے
پوچھتے ہیں مسکرا کر کون دیوانہ ہوا
دہر میں اب مسکرانے کی ہمیں فرصت نہیں
دل ہجوم غم بنا غم آہ افسانہ ہوا
تو نہ ہوتا تو زمین و آسماں کچھ بھی نہ تھا
تیرے قدموں کی بدولت میرا کاشانہ ہوا
اے کرم فرما تجھے ہو علم اس کا یا نہ ہو
کون تجھ میں کھو کے اور پھر خود سے بیگانہ ہوا
ہم ہی اک تنہا نہیں تسنیمؔ مستانے ہوئے
ان کی نظریں کیا اٹھیں ہر رند مستانہ ہوا

غزل
جب ہماری زندگی کا ختم افسانہ ہوا
جمیلہ خاتون تسنیم