جب بھی تیری یادوں کا سلسلہ سا چلتا ہے
اک چراغ بجھتا ہے اک چراغ جلتا ہے
شرط غم گساری ہے ورنہ یوں تو سایہ بھی
دور دور رہتا ہے ساتھ ساتھ چلتا ہے
سوچتا ہوں آخر کیوں روشنی نہیں ہوتی
داغ بھی ابھرتے ہیں چاند بھی نکلتا ہے
کیسے کیسے ہنگامے اٹھ کے رہ گئے دل میں
کچھ پتہ مگر ان کا آنسوؤں سے چلتا ہے
وہ سرود کیف آگیں سوز غم جسے کہیے
زندگی کے نغموں میں ڈھلتے ڈھلتے ڈھلتا ہے
غزل
جب بھی تیری یادوں کا سلسلہ سا چلتا ہے
رسا چغتائی