جب بھی شمع طرب جلائی ہے
آنچ محرومیوں کی آئی ہے
راستے اتنے بے کراں تو نہ تھے
جستجو کتنی دور لائی ہے
زحمت جستجو سے کیا ہوگا
بوئے گل کس کے ہاتھ آئی ہے
کتنی رنگینیوں میں تیری یاد
کس قدر سادگی سے آئی ہے
کہہ کے جان غزل تجھے ہم نے
اپنی کم مائیگی چھپائی ہے
جب بھی جاویدؔ چھیڑ دی ہے غزل
بات وارفتگی تک آئی ہے
غزل
جب بھی شمع طرب جلائی ہے
فرید جاوید