EN हिंदी
جب بھی شمع طرب جلائی ہے | شیح شیری
jab bhi sham-e-tarab jalai hai

غزل

جب بھی شمع طرب جلائی ہے

فرید جاوید

;

جب بھی شمع طرب جلائی ہے
آنچ محرومیوں کی آئی ہے

راستے اتنے بے کراں تو نہ تھے
جستجو کتنی دور لائی ہے

زحمت جستجو سے کیا ہوگا
بوئے گل کس کے ہاتھ آئی ہے

کتنی رنگینیوں میں تیری یاد
کس قدر سادگی سے آئی ہے

کہہ کے جان غزل تجھے ہم نے
اپنی کم‌ مائیگی چھپائی ہے

جب بھی جاویدؔ چھیڑ دی ہے غزل
بات وارفتگی تک آئی ہے