جب بھی ملا وہ ٹوٹ کے ہم سے ملا تو ہے
ظاہر ہے اس خلوص میں کچھ مدعا تو ہے
اس کو نیا مزاج نیا ذہن چاہیے
بچہ زباں چلاتا نہیں سوچتا تو ہے
کیا منصفی ہے آپ کی خود دیکھ لیجئے
انصاف شہر شہر تماشا بنا تو ہے
دھبے لہو کے ہم کو بتا دیں گے راستہ
شاید کسی کے پاؤں میں کانٹا چبھا تو ہے
منزل کی جستجو میں اکیلے نہیں ہیں ہم
ہم راہ تو نہیں ہے ترا نقش پا تو ہے
گو امن ہو گیا ہے وہاں قتل و خوں کے بعد
دروازہ سازشوں کا ابھی تک کھلا تو ہے
تہذیب کے لبادے میں سب بے لباس ہیں
انجمؔ ترے بدن پہ دریدہ قبا تو ہے

غزل
جب بھی ملا وہ ٹوٹ کے ہم سے ملا تو ہے
فاروق انجم