جب آسمان زمیں پر اترنے لگتا ہے
تو زندگی کا تصور بکھرنے لگتا ہے
کرید لیتا ہوں تیرے خیال سے اکثر
تری وفا کا اگر زخم بھرنے لگتا ہے
جسے فریب ملا ہو وفاؤں کے بدلے
وہ شخص اپنے ہی سائے سے ڈرنے لگتا ہے
میں جب سمٹتا ہوں حالات کی پناہوں میں
مرا وجود شکستہ بکھرنے لگتا ہے
زمانہ کیوں نہ مری راہ کی رکاوٹ ہو
مرا جنوں بھی تو حد سے گزرنے لگتا ہے
اڑان بھرتا ہوں جب بھی خلاؤں سے آگے
نہ جانے کون مرے پر کترنے لگتا ہے
قدم بڑھاتا ہوں سالمؔ حیات کی جانب
تو میرے پاؤں میں رستہ ٹھہرنے لگتا ہے
غزل
جب آسمان زمیں پر اترنے لگتا ہے
سالم شجاع انصاری