جب آسماں نے ننھے پرندوں کو پر دیے
ظالم ہوا نے تیر بھی ہمراہ کر دیے
اس گلستاں سے فاختہ پرواز کر گئی
موسم نے شاخسار بھی کانٹوں سے بھر دیے
ہر شخص عہد جبر میں حرف دعا ہوا
ہونٹوں کو حادثات نے کیا کیا ہنر دیے
اپنی نگہ کے آئینے سورج کو سونپ کر
ہم نے بھی کائنات کو آئینہ گر دیے
پھر آسماں کے اوج سے شبنم عطا ہوئی
پھر میری پستیوں نے مجھے بحر و بر دیے

غزل
جب آسماں نے ننھے پرندوں کو پر دیے
مسرت ہاشمی