جاتا ہے مرے گھر سے دل دار خدا حافظ
ہے زندگی اب مشکل بے یار خدا حافظ
وہ مست شراب حسن غصے سے نہایت ہی
کھینچے ہوئے آتا ہے تلوار خدا حافظ
مجھ پاس طبیب آ کے کہنے لگا اے یار
بے طرح کا ہے اس کو آزار خدا حافظ
حاصل نہیں درماں کا وہ ہے یہ مرض جس سے
جاں بر نہ ہوا کوئی بیمار خدا حافظ
بے طرح کچھ ایدھر کو وہ مست شراب حسن
کھینچے ہوئے آتا ہے تلوار خدا حافظ
اے شیخ تو اس بت کے کوچے میں تو جاتا ہے
ہو جائے نہ یہ سبحہ زنار خدا حافظ
ڈرتا ہوں کہ دل ہر دم ملتا ہے نہ ہو جاوے
اس چشم ستم گر کا بیمار خدا حافظ
یوں مہر سے فرمایا اس ماہ نے وقت صبح
ہم جانے ہیں اب تیرا بیدارؔ خدا حافظ
غزل
جاتا ہے مرے گھر سے دل دار خدا حافظ
میر محمدی بیدار