جانیں مشتاقوں کی لب پر آئیاں
بل بے ظالم تیری بے پروائیاں
صبح ہونے آئی رات آخر ہوئی
بس کہاں تک شوخیاں مچلائیاں
بس بھری ناگن ہے کیا ہی زلف یار
جس کو دیکھ افعی نے لہریں کھائیاں
جیب تو کیا ناصحا دامن کی بھی
دھجیاں کر عشق نے دکھلائیاں
سادہ روئی ہی غضب تھی تس اوپر
کرتے ہو ہر لحظہ حسن آرائیاں
اس سمن اندام گل رخسار کی
جاں فزا نکہت چرا کر لائیاں
سن کے یہ باد صبا نے باغ میں
گٹھریاں غنچوں کی پھر کھلوائیاں
لیٹا چھاتی پر مری لیتا تھا وہ
آہ کس کس آن سے انگڑائیاں
اس سمے کو دیکھ کر سو رشک سے
موج نے دریا پہ لہریں کھائیاں
دیکھتے ہی اس کو شیدا ہو گیا
کیا ہوئیں بیدارؔ وہ دانائیاں
غزل
جانیں مشتاقوں کی لب پر آئیاں
میر محمدی بیدار