جانے کیا سوچ کے گھر تک پہنچا
میں کہ معراج ہنر تک پہنچا
اپنے کشکول میں حسرت لے کر
اک گداگر ترے در تک پہنچا
درد اٹھا تھا مرے پہلو میں
آخر کار جگر تک پہنچا
اک تباہی مرے دل پر اتری
اک تماشا مرے گھر تک پہنچا
اک دعا میرے لبوں تک آئی
اک اثر اس کی نظر تک پہنچا
جتنی آہیں مرے دل سے نکلیں
یا خدا ان کو اثر تک پہنچا
شاخ سے ٹوٹا ہوا پتا ہوں
تو مجھے میرے شجر تک پہنچا
ہم ستاروں کی خبر لائیں گے
یہ خبر اہل خبر تک پہنچا

غزل
جانے کیا سوچ کے گھر تک پہنچا
بقا بلوچ