EN हिंदी
جاں سپاری کے بھی ارماں زندگی کی آس بھی | شیح شیری
jaan-sapari ke bhi arman zindagi ki aas bhi

غزل

جاں سپاری کے بھی ارماں زندگی کی آس بھی

اختر انصاری

;

جاں سپاری کے بھی ارماں زندگی کی آس بھی
حفظ ناموس الم بھی نیش غم کا پاس بھی

خاک در بر ہی سہی میں خاک بھی وہ خاک ہے
جس میں میرے زخم دل کی بو بھی ہے اور باس بھی

کتنے دور چرخ ان آنکھوں نے دیکھے کچھ نہ پوچھ
مٹ چکا ہے وقت کی رفتار کا احساس بھی

ہائے وہ اک نشتر آگیں نیشتر افروز یاد
جس کے آگے ہیچ اپنی برش انفاس بھی

ہم نہ تھے کچھ خود ہی اس سودے پہ راضی ورنہ یوں
راس آنے کو یہ دنیا آ ہی جاتی راس بھی

خود کو اے دل یاس کامل کے حوالے یوں نہ کر
جھانکتی ہے ذہن کے غرفے سے کوئی آس بھی

کون اس وادی سے اچھلا تا سر عرش بریں
گم ہیں جس وادی میں اخترؔ خضر بھی الیاس بھی