EN हिंदी
جان میں جان تبھی قیس کے بس آتی ہے | شیح شیری
jaan mein jaan tabhi qais ke bas aati hai

غزل

جان میں جان تبھی قیس کے بس آتی ہے

میر حسن

;

جان میں جان تبھی قیس کے بس آتی ہے
ناقۂ لیلیٰ کی جب بنگ جرس آتی ہے

ساتھ دیکھوں ہوں کسی کے جو کسی دلبر کو
میں بھی جی رکھتا ہوں مجھ کو بھی ہوس آتی ہے

قیس و فرہاد کے رونے کی جب آ جاتی ہے لہر
کوہ و صحرا پہ گھٹا جا کے برس آتی ہے

زندگی ہے تو خزاں کے بھی گزر جائیں گے دن
فصل گل جیتوں کو پھر اگلے برس آتی ہے

جب قفس میں تھے تو تھی یاد چمن ہم کو حسنؔ
اب چمن میں ہیں تو پھر یاد قفس آتی ہے