جان دیتے ہیں مگر اظہار ہم کرتے نہیں
یعنی تشہیر صلیب و دار ہم کرتے نہیں
اپنے دشمن کو بھی للکاریں گے آ کر سامنے
پشت سے چونکہ کسی پر وار ہم کرتے نہیں
ہو رہا ہے ہر طرف طرفہ تماشہ روز و شب
عمر کو اب بر سر پیکار ہم کرتے نہیں
جب تمہارے شہر کا ہر ذرہ ذرہ ہے عزیز
کون کہتا ہے کہ تم سے پیار ہم کرتے نہیں
ہے زمانہ کچھ زمانے کی روش کچھ اور ہے
خود کو رسوا یوں سر بازار ہم کرتے نہیں
نام کی اپنے تمنا یا صلے کی آرزو
لوگ کرتے ہیں مگر انصارؔ ہم کرتے نہیں

غزل
جان دیتے ہیں مگر اظہار ہم کرتے نہیں
قاضی انصار