EN हिंदी
جان دیتے ہیں مگر اظہار ہم کرتے نہیں | شیح شیری
jaan dete hain magar izhaar hum karte nahin

غزل

جان دیتے ہیں مگر اظہار ہم کرتے نہیں

قاضی انصار

;

جان دیتے ہیں مگر اظہار ہم کرتے نہیں
یعنی تشہیر صلیب و دار ہم کرتے نہیں

اپنے دشمن کو بھی للکاریں گے آ کر سامنے
پشت سے چونکہ کسی پر وار ہم کرتے نہیں

ہو رہا ہے ہر طرف طرفہ تماشہ روز و شب
عمر کو اب بر سر پیکار ہم کرتے نہیں

جب تمہارے شہر کا ہر ذرہ ذرہ ہے عزیز
کون کہتا ہے کہ تم سے پیار ہم کرتے نہیں

ہے زمانہ کچھ زمانے کی روش کچھ اور ہے
خود کو رسوا یوں سر بازار ہم کرتے نہیں

نام کی اپنے تمنا یا صلے کی آرزو
لوگ کرتے ہیں مگر انصارؔ ہم کرتے نہیں