EN हिंदी
جاں بھی بجاں ہے ہجر میں اور دل فگار بھی (ردیف .. ') | شیح شیری
jaan bhi ba-jaan hai hijr mein aur dil figar bhi

غزل

جاں بھی بجاں ہے ہجر میں اور دل فگار بھی (ردیف .. ')

نظیر اکبرآبادی

;

جاں بھی بجاں ہے ہجر میں اور دل فگار بھی
تر ہے مژہ بھی اشک سے جیب بھی اور کنار بھی

طرفہ فسوں سرشت ہے چشم کرشمہ سنج یار
لیتی ہے اک نگاہ میں صبر بھی اور قرار بھی

کوچے میں اس کے بیٹھنا حسن کو اس کے دیکھنا
ہم تو اسی کو سمجھے ہیں باغ بھی اور بہار بھی

دیکھیے کیا ہو بے طرح دل کی لگے ہیں گھات میں
غمزۂ پر فریب بھی عشوۂ سحر‌ کار بھی

زلف کو بھی ہے دم بہ دم عزم کمند افگنی
دام لیے ہے مستعد طرۂ تابدار بھی

بیٹھے بتوں کی بزم میں جن کی ہے قدر جب وہ لوگ
اپنے فریب و فن سے واں تھا یہ خراب و خوار بھی

گننے لگے وہ اپنے جب چاہنے والوں کو نظیرؔ
اٹھ کے یکایک اس گھڑی ہم نے کہا ''ہیں یار بھی''