جاں بازوں کے لب پر بھی اب عیش کا نام آیا
جس ہاتھ میں تیشہ تھا اس ہاتھ میں جام آیا
اک تازہ تغیر ہے تہذیب کی دنیا میں
یا حسن حقیقی کو انداز خرام آیا
راحت کا تصور ہی باقی نہ رہا شاید
ہونٹوں پہ تکلف سے آرام کا نام آیا
کچھ سوچ کے اک راہ پرخار سے گزرا تھا
کانٹے بھی نہ راس آئے دامن بھی نہ کام آیا
ساقی یہ حریفوں کو پہچان کے دینا کیا
جب بزم سے ہم نکلے تب دور میں جام آیا
اس تیرہ نصیبی میں کرنوں کا سہارا کیا
سورج کی طرف دیکھا وہ بھی لب بام آیا
یہ راز و نیاز غم کچھ وہ بھی سمجھتے ہیں
جب چوٹ پڑی دل پر پلکوں کو سلام آیا
غم اور خوشی دونوں ہر روز کے مہماں ہیں
یہ صبح بہ صبح آئی وہ شام بہ شام آیا
پھینکے ہوئے شیشوں سے دل کتنے بنائے ہیں
جب جام کوئی ٹوٹا دیوانوں کے کام آیا
کانوں میں کچھ آتی ہے آواز پھڑکنے کی
پھر کوئی نیا طائر شاید تہہ دام آیا
اشعار نشورؔ اکثر ان کی بھی زباں پر ہیں
چپ رہ نہ سکا کوئی جب وقت کلام آیا

غزل
جاں بازوں کے لب پر بھی اب عیش کا نام آیا
نشور واحدی