جان آنکھوں میں رہی جی سے گزرنے نہ دیا
اچھی دیدار کی حسرت تھی کہ مرنے نہ دیا
کیا قیامت ہے ستم گار بھری محفل میں
دل چرا کر تری دزدیدہ نظر نے نہ دیا
مدتوں کش مکش یاس و تمنا میں رہے
غم نے جینے نہ دیا شوق نے مرنے نہ دیا
ناخدا نے مجھے دلدل میں پھنسائے رکھا
ڈوب مرنے نہ دیا پار اترنے نہ دیا
کوئی تو بات ہے جو غیر کے آگے اس نے
شکوہ کیسا کہ مجھے شکر بھی کرنے نہ دیا
خاک آرام کی خواہش ہو وطن سے باہر
جب ہمیں چین تپشؔ اپنے ہی گھر نے نہ دیا

غزل
جان آنکھوں میں رہی جی سے گزرنے نہ دیا
شیخ عبداللطیف تپش