جا چکا طوفان لیکن کپکپی ہے
وقت کی دیوار اب تک ہل رہی ہے
ہم نے پہچانا بہت لوگوں کو لیکن
ایک اک صورت ابھی تک اجنبی ہے
اب کرائے کے مکاں میں گھٹ رہا ہوں
باپ دادا کی حویلی بک چکی ہے
روز کہتے ہو مگر کہتے نہیں ہو
وہ کہانی جو ابھی تک ان کہی ہے
کیسے گزرا پڑھ کے اندازہ لگا لو
وقت کی تفسیر چہرے پر لکھی ہے
اندر اندر میں بکھرتا جا رہا ہوں
کوئی شے رہ رہ کے مجھ میں ٹوٹتی ہے
گھاس اگ آئی در و دیوار دل پر
خانہ ویرانی کا منظر دیدنی ہے

غزل
جا چکا طوفان لیکن کپکپی ہے
سلطان اختر