اتنے تو ہم خیال دل مبتلا ہیں ہم
کل جس سے خوش تھے آج اسی سے خفا ہیں ہم
تجھ سے جدا نہیں ہیں جو تجھ سے جدا ہیں ہم
تیرے ہی ہیں اگرچہ ترے نقش پا ہیں ہم
کہتے ہیں ہم کو نیک بھی بد بھی ہزار ہا
اس کی خبر نہیں ہے کہ دراصل کیا ہیں ہم
رتبہ بڑھا دیا ہے جنون فراق نے
ہم سے جدا ہیں آپ تو سب سے جدا ہیں ہم
تاثیر اشک و آہ نے بدلا نہیں مزاج
مدت ہوئی کہ شاکیٔ آب و ہوا ہیں ہم
لاکھوں جفائیں سہہ کے اب آیا ہے یہ خیال
ملتے ہی کیوں ہیں اس سے جو بے مدعا ہیں ہم
وہ یاس بن گئی جو زمانے کی آس تھی
آزردہ آج اپنے سے بے انتہا ہیں ہم
جمتا ہے اپنے ذکر سے اب محفلوں کا رنگ
رہتے ہیں اپنے گھر میں مگر جا بجا ہیں ہم
کیا کیا عنایتیں ہیں بس اے چرخ پیر بس
تیرا تصدق اب بھی کسی سے جدا ہیں ہم
اب اتفاق اہل وفا تم کو کیا دکھائیں
محشر میں دیکھنا کہ یہ سب ایک جا ہیں
منظور امتحان دل عشق باز ہے
اب اپنے واسطے بھی تو صبر آزما ہیں ہم
اس پر مٹے ہوئے ہیں مٹاتا ہے جو صفیؔ
دشمن کی گا رہے ہیں بڑے خوش نوا ہیں ہم

غزل
اتنے تو ہم خیال دل مبتلا ہیں ہم
صفی اورنگ آبادی