عشق تک اپنی دسترس بھی نہیں
اور دل مائل ہوس بھی نہیں
اب کہاں جائیں گے خراب بہار
آشیاں بھی نہیں قفس بھی نہیں
برق کی بیکسی کو روتا ہوں
اب نشیمن میں خار و خس بھی نہیں
کس نے دیکھا شگفتگی کا مآل
زندگی اتنی دور رس بھی نہیں
ہم اسیروں کے واسطے سرشار
رسم پابندئ قفس بھی نہیں
غزل
عشق تک اپنی دسترس بھی نہیں
سرشار صدیقی