عشق سے کچھ کام نے کچھ کوئے جاناں سے غرض
گل سے مطلب ہے نہ کچھ خار بیاباں سے غرض
عشق کی سرکار کو بے باک بالکل کر چکے
اب نہ کچھ زنجیر سے مطلب نہ زنداں سے غرض
کس سے ہم جھگڑیں نہیں اپنا کسی ملت میں میل
عشق کے بندے کو کیا گبر و مسلماں سے غرض
عالم وحشت میں عریانی کا جامہ چاہئے
کام ہاتھوں کو گریباں سے نہ داماں سے غرض
تیری نظروں میں نہ ٹھہرے گا یہ روئے آفتاب
تجھ کو اے اخترؔ نہ ہوگی ماہ تاباں سے غرض
غزل
عشق سے کچھ کام نے کچھ کوئے جاناں سے غرض
واجد علی شاہ اختر